ہوا زور زور سے چل رہی تھی اور کہر نے کوہِ سیاہ وادی کی پہاڑیوں کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔ یہ وہ رات تھی جب فضا میں جادو بسا ہوتا ہے—ایسا جادو جو درختوں کے بیچ سرگوشیوں کی طرح گونجتا ہے، اور اپنے ساتھ کئی راز چھپا رکھتا ہے۔
گاؤں کے کنارے پر واقع قدیم حویلی، جو صدیوں سے اپنی جگہ پر قائم تھی، یوں لگ رہا تھا جیسے وہ خود سانس لے رہی ہو۔ اس کی کھڑکیوں سے مدھم روشنی طوفانی آسمان تلے جھلملا رہی تھی۔
اندر، اریبہ احسن ایک بڑے دریچے کے سامنے کھڑی تھی، گہری چھاؤں میں جھانکتی ہوئی۔ اس کی نظریں، جو نہ جانے کتنے رازوں کی گواہ تھیں، سنسان منظر پر جمی ہوئی تھیں۔ لیکن وہ صرف دھند کو نہیں دیکھ رہی تھی—وہ کچھ اور دیکھ رہی تھی۔ وہ… تقدیر کو محسوس کر رہی تھی۔
کئی دنوں سے وہ خوابوں میں اُس کی طرف بڑھ رہی تھی، دھیمی سرگوشیوں کی صورت، اور اُسے مجبور کر رہی تھی کہ وہ اپنے خاندان کے ماضی کو سمجھے، اس حویلی کی اصل حقیقت جانے، اور سب سے بڑھ کر، اُس جڑواں بہن کے بارے میں جان سکے جس کا اُسے کبھی علم ہی نہ تھا۔
اس کا دل زور سے دھڑکنے لگا، جیسے اس کے وجود کا کوئی حصہ کہیں کھو گیا ہو۔ وہ اس رشتے کو محسوس کر سکتی تھی… وہ ناطہ… وہ بندھن۔
ٹھک ٹھک۔
مدھم مگر چونکا دینے والی دستک نے اُسے خیالوں کی دنیا سے نکالا۔ اریبہ نے جلدی سے پلٹ کر دیکھا، اس کا سیاہ لباس اس کے گرد سائے کی طرح لپک گیا۔
دروازے پر ایک دبلا پتلا خانساماں کھڑا تھا، ہاتھ میں چاندی کی طشتری تھامے، چہرے پر ہمیشہ کی طرح فکر مندی کے آثار تھے۔
"بی بی صاحبہ،" اُس نے مؤدبانہ انداز میں کہا، "وہ خط آ گیا ہے جس کا آپ کو انتظار تھا۔"
اریبہ نے مہر بند لفافہ تھاما، اس کی انگلیاں نرم موم سے ٹکرائیں۔ اس میں سے لیونڈر کی ایک جانی پہچانی خوشبو ابھری—پُرانی، مگر بے چینی پیدا کرنے والی۔ وہ پہلے بھی ایسے خط پا چکی تھی—ایسے جو ایک عجیب سا بوجھ اپنے اندر سموئے ہوتے تھے۔ مگر یہ خط… یہ مختلف تھا۔
اس نے بغیر کسی توقف کے مہر توڑی اور خط پڑھنے لگی:
برائے محترمہ اریبہ احسن،سچ جو تم تلاش کر رہی ہو، وہ حویلی میں نہیں بلکہ جنگل میں ہے۔ چاندنی رات میں، اُس قدیم پتھر کے پاس، تمہیں اپنی بہن ملے گی۔ تمہاری تقدیر تمہارا انتظار کر رہی ہے۔
یہ الفاظ جیسے اس کے دماغ پر کندہ ہو گئے۔ خط اس کے ہاتھوں میں لرزنے لگا۔ ایک بہن؟ لیکن… کیسے؟ اُسے کبھی کسی بہن کا احساس تک نہ ہوا تھا۔ نہ کوئی خواب، نہ کوئی یاد۔ مگر یہ خط… یہ پیغام… جیسے اس کے اندر کسی گہری نیند میں سوئی ہوئی چیز کو جگا گیا تھا۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور سوچتی، دروازے کی گھنٹی زور سے بجی—لمبی اور بےتاب۔
اریبہ کا دل دھڑکنے لگا۔ وہ جلدی سے کمرے کے پار گئی، گھنٹی کی آواز جیسے اس کے سینے میں دھڑک رہی تھی۔ اس نے دروازہ کھولا—یہ سوچ کر کہ شاید خانساماں ہوگا۔
مگر سامنے ایک اجنبی کھڑا تھا۔
ایک مرد، لمبا، چوڑے شانے والا، سیاہ نفیس لباس پہنے۔ اس کی آنکھیں، جو سرمئی طوفان جیسی تھیں، سیدھی اریبہ کی آنکھوں سے جا ٹکرائیں۔ اور ایک لمحے کے لیے، وقت جیسے تھم گیا۔
اس نے اُسے کچھ یوں دیکھا، جیسے وہ اُسے جانتا ہو۔ جیسے وہ اس لمحے کا شدت سے انتظار کر رہا ہو۔
"میں تمہیں جانتا ہوں،" اُس نے آہستہ سے کہا، آواز میں حیرت کی جھلک تھی۔
اریبہ نے پلکیں جھپکیں، الجھن میں ڈوبی ہوئی۔ اجنبی کی موجودگی اس کے اندر ایک عجیب سا طوفان برپا کر رہی تھی۔
"تم اریبہ احسن ہو، ہے نا؟" اس نے نرمی سے پوچھا، لبوں پر ایک دھیمی سی مسکراہٹ ابھری۔
"جی،" اریبہ نے آہستگی سے جواب دیا، مگر یہ الفاظ اس کی زبان پر اجنبی لگے۔ "اور آپ کون ہیں؟"
مرد کی آنکھوں میں چمک آئی، جیسے کسی طوفان میں بجلی چمکی ہو۔
"زایان احسن۔" اس کی آواز پُرسکون تھی، لیکن اس کے نیچے کوئی بےچینی چھپی ہوئی تھی، جیسے وہ کسی جلتی آگ پر خاموشی کا پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہو۔ "میں تمہارا انتظار کر رہا تھا۔"
اریبہ اُسے حیرت سے دیکھنے لگی۔ میرا انتظار؟ اسے کیسے معلوم کہ میں یہاں ہوں؟
اس سے پہلے کہ وہ کوئی سوال کرتی، زایان کی نظریں دور کہر میں کسی حرکت پر جم گئیں—کوئی سایہ، کوئی خطرہ۔ وہ ایک قدم آگے بڑھا، اور نرمی سے اس کا ہاتھ تھاما۔
"میرے ساتھ چلو،" اس نے دھیمے لہجے میں کہا، "یہاں محفوظ نہیں ہے۔"
اریبہ نے تھوڑی ہچکچاہٹ محسوس کی، مگر دل کی گہرائی میں کوئی عجیب سی کشش اُسے زایان پر اعتبار کرنے پر مجبور کر رہی تھی۔ اس میں کچھ تھا… کچھ ایسا جو ٹھیک محسوس ہو رہا تھا، حالانکہ اس کے اندر کی ہر آواز اُسے پیچھے ہٹنے کا کہہ رہی تھی۔
اسی لمحے، باہر کا کہر جیسے ہٹنے لگا—جیسے کوئی قدیم اور خطرناک شے سامنے آ رہی ہو۔
اریبہ نے زایان کی آنکھوں میں دیکھا… اور اُس لمحے اُسے یقین ہو گیا۔
یہ اتفاق نہیں تھا۔
یہ… تقدیر تھی۔ K